Junoon season 2 Episode 16 Ibn E Adam

 #جنون

#سیزن_2

#قسط_نمبر_16


Episode 16


میڈیم ضمانت کا کچھ کہہ نہیں سکتے دہشت گردی ایکٹ کے تحت گرفتار افراد کو سیکورٹی فورسز کے ادارئے جب تک چاہیں اپنی حراست میں رکھ کر پوچھ گچھ کر سکتے ہیں......... مگر وکیل صاحب اس طرح اچانک سے کسی کو بھی گرفتار کر لینا سمجھ سے باہر ہے...... ہادیہ نے فون پر وکیل سے استفسار کیا تھا.....محترمہ اس ملک میں ایسا ہی ہوتا ہے اور یہ قانون نیا نہیں ہے بہت پہلے سے ہے......

اس کا کوئی راستہ تو ہو گا ناں...... 

فی الحال ہمیں انتظار کرنا چاہیے کہ سیکورٹی فورسز تفتیش کے بعد زیان پر کون کون سی دفعات کے تحت مقدمہ درج کرتے ہیں پھر ہی ان کی ضمانت کے متعلق کچھ سوچا جا سکتا ہے.... 

یہ تفتیش کتنے دن میں مکمل ہو گی.... 

ایک دن یا ایک سال....... 

کیا کیا مطلب وکیل صاحب..... ہادیہ سوالیہ انداز میں مخاطب ہوئی

میڈیم قانون کے تحت سیکورٹی ادرائے 40 دن کے اندر اندر گرفتار شخص کو تفتیش کر کے عدالت میں پیش کرنے کے پابند ہیں مگر اس ملک میں کچھ بھی ممکن ہے بحرحال آپ فکر نہ کریں آپ کو انتطار کرنا چاہیے....... ہادیہ نے وکیل کا شکریہ ادء کرتے ہوئے فوب بند کر دیا...... یہ سلسلہ پچھلے 2 گھنٹے سے جاری تھا ہادیہ درجن بھر وکلا کو فون کر چکی تھی مگر بے سود...... میڈیم باہر کچھ میڈیا کے نمائندے ہیں.... ماہم حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے آہستگی سے بولی تھی..... انہیں کہو میں یہاں نہیں ہو.... ہادیہ نے بے بسی سے جواب دیا تھا ایک ایک لمحہ اس کے لئے صدیوں کی مانند گزر رہا تھا.... میڈیم وہ آپ کو آج عدالت پیشی پر بھی جانا تھا تو..... ماہم نے جملہ نامکمل چھوڑ دیا...... آج جانا تھا کیا...... جی میڈیم آج جانا ہے..... یار..... ہادیہ نے کچھ سوچتے ہوئے ماتھے پر ہاتھ رکھا...... اچھا تم ایسا کرو میں وکیل کو فون کر دیتی ہوں تم میری جگہ چلی جاؤ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے...... 

آپ ٹھیک ہیں ناں میڈیم...... ہاں بس تھوڑی طبیعت خراب ہے تم چلی جاؤ..... 

جی ٹھیک ہے..... ماہم خاموشی سے کمرے سے نکل گئی 


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


تمہیں پتہ چلا کیپٹن اس ہادیہ کا کھسم دہشتگردی ایکٹ میں اندر چلا گیا.... کرنل شیر خان نے مسکراتے ہوئے کیپٹن صلدم سے مخاطب ہوا.....جی کرنل صاحب مجھے خبر ملی تھی..... ویسے کیپٹن اصل مزئے کی بات یہ ہے کہ وہ عورت اب اس گرفتاری کی وجہ ہمیں قرار دئے کر اسٹبلشمنٹ کے خلاف تقاریر کرئے گی اور جو دو چار ووٹ ملتے ہیں ان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گی...... کرنل شیر خان نے مشکل سے اپنی ہنسی کو روکا تھا...... میں جانتا ہوا کرنل صاحب کہ اس گرفتاری کے پچھے اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ نہیں ہو سکتا مگر کرنل صاحب یہ بات تو آپ بھی اچھے سے جانتے ہیں کہ اسٹبلشمنٹ کبھی کسی کے ساتھ مخلص نہیں رہی چاہے وہ کوئی فوجی ہو کوئی سیاستدان یا کوئی عام شہری..... 

کیپٹن کیوں ایک بازاری عورت کے پچھے اپنے دماغ کی دہی کر رہے ہو یہ بریانی کھاؤ اور عورت اور اسٹیبلشمنٹ کی لڑائی کا مزہ لو...... کرنل شیر خان نے کیپٹن کے سامنے پڑی بریانی کی پلیٹ کی طرف اشارہ کیا تھا...... واقعی ہی کرنل صاحب بریانی بہت مزیدار ہے پلوشہ سے بنوائی ہے کیا...... نہیں کیپٹن تم جانتے تو ہو وہ بہت لاڈلی ہے کام کہاں کرئے گی بھلا میں نے خود ہی بنائی ہے..... ارئے واہ کرنل صاحب آپ نے تو کمال ہی کر دیا..... صلدم شاہ مسکراتے ہوئے کیپٹن کی تعریف کرنے لگے تھے 

بس صلدم تم تو جانتے ہی ہو کہ ایک سولجر کو ہر شعبے میں ماہر ہونا چاہیے اور پھر جب مہمان گھر آئے ہوں تو ساری مہارتیں استعمال کرنا پڑتی ہیں.....لو صلدم پلوشہ بھی آ گئی..... کرنل نے سیڑھیوں سے اتر کر آتی پلوشہ کی طرف اشارہ کیا..... آ جاؤ پلوشہ بیٹا ہم تمہاری ہی بات کر رہے تھے 

پاپا کیسے ہیں آپ...... پلوشہ ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھے اپنے باپ کے گلے لگ گئی اور کرنل نے شفقت سے پلوشہ کے سر پر ہاتھ پھیرا...... پاپا مجھے ابھی نکلنا ہو گا.... بیٹا کیپٹن صاحب کیا سوچیں گے کہ میزبان خود گھر سے جا رہے ہیں......مجھے کورٹ جانا ہے پاپا..... ارئے بیٹا دو چار منٹ بیٹھ جاؤ ناں...... کیپٹن دیکھ لو میں کہتا تھا ناں بہت شرارتی ہے..... کرنل شیر خان نے آنکھیں جھکائے بیٹھے کیپٹن کو مخاطب کیا تھا..... پاپا آپ بھی ناں بس..... پلوشہ بناوٹی سا منہ بنا کر بولی اور پھر کرسی پر بیٹھ گئی..... کرنل صاحب مجھے اب اجازت دیں..... صلدم عاجزی سے بولا تھا..... چلو جی اب اس کو بیٹھایا ہے تو اب تم نکل پڑئے.... کرنل بناوٹی غصے سے بولا تھا..... دیکھیں پاپا ہم دونوں کو ہی جلدی ہے ہمیں اجازت دیں..... نہیں تم دونوں یہاں بیٹھ کر باتیں کرو میں تم دونوں کے لئے چائے لاتا ہوں....کرنل کرسی چھوڑتے ہوئے بولا..... پاپا..... پلوشہ حیرانگی سے کرنل کی طرف دیکھنے لگی جو پلوشہ کو اگنور کرتے ہوئے وہاں سے جا چکا تھا......پاپا بھی ناں...... وہ وہ........ پلوشہ کچھ بولتے بولتے چپ کر گئی اسے بلکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیپٹن سے کیا بات کرئے...... ارئے تم لوگ تب کے خاموش بیٹھے ہو حد ہے بھئی.... کرنل شیر خان کچن سے واپسی پر دونوں کو خاموش دیکھ کر حیران تھا......پاپا ہم کیا بات کریں پلوشہ نے ایک نظر کیپٹن کی طرف دیکھا جو نظریں جھکا بیٹھا تھا..... ارئے کیپٹن تم کیا لڑکیوں کی طرح شرما رہے ہو پلوشہ بتاؤ کیپٹن کو کہ تم آجکل کیا کر رہی ہو......وہ میں وکیل ہوں اور آجکل وکالت ہی کر رہی ہوں کیپٹن...... کونسا کیس لڑ رہی ہیں آپ................. کیپٹن نے چپ کا روزہ توڑا تھا.... وہ میں ہادیہ کے خلاف کیس میں فرقان کی وکیل ہوں..... وہی فرقان جو اس کا سابقہ دیور ہے..... جی کیپٹن ہادیہ کے سابقہ شوہر کا بھائی.....کیپٹن میں مل چکا ہوں اس لڑکے سے بہت اچھا بچہ ہے وہ.... کرنل نے پلوشہ کی بات کو مکمل کیا..... کیا لگتا ہے آپ یہ کیس جیت سکتی ہیں.... ہاں بلکہ ہم کیس جیت چکے ہیں.... پلوشہ پرجوش انداز سے بولی تھی......اچھا مجھے جانا ہو گا جج صاحب پہنچنے والے ہوں گے..... پلوشہ اپنا بیگ اٹھاتے ہوئے بولی..... ہاں پلوشہ مجھے آج گاڑی چاہیے تم کیپٹن کے ساتھ چلی جاؤ یہ تمہیں چھوڑ دئے گا کیوں کیپٹن......... نہیں میں اکیلی چلی جاؤں گی پاپا...... پلوشہ اکیلے نہیں جاتے بیٹا......مگر پاپا.................. پلوشہ جب کہا ناں اکیلے نہیں جانا تو...... کرنل غصیلے لہجے میں بولا..... پاپا میں اپنی........جاؤ کرنل کی  گاڑی میں بیٹھو...... کرنل نے پلوشہ کی بات کاٹ دی تھی..... کرنل صاحب کیوں غصہ ہو رہے ہیں.... کیپٹن کی بات سنے بغیر پلوشہ نے بیگ اٹھایا اور بے بسی سے چلی گئی..... کرنل صاحب جوان بیٹی ہے اس طرح غصہ..... کیپٹن کبھی کبھی راہ راست پر لانے کے لئے غصہ دیکھانا ضروری ہوتا ہے........کرنل نے کیپٹن کی بات کاٹ دی تھی..... اگر وہ اکیلی جانے چاہتی ہے تو جانے دیں سمجھدار ہے بچی تھوڑی ہے...... کیپٹن زمانہ بہت خراب ہے کب کس کی سمجھداری کہاں بے وقوفی کی صورت اختیار کر جائے کوئی پتہ چلتا ہے بھلا...... کرنل صاحب آپ برا نہ مانیں تو کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اپنی جوان بیٹی کو میرئے ساتھ بجھنے پر ہی کیوں بضد ہیں..... کیپٹن کے دل کی بات اس کے ہونٹوں پر آ گئی تھی..... کیپٹن تمہیں پتہ ہے کسی بھی باپ کے لئے اپنی بیٹی کے معاملے میں کسی دوسرے مرد پر اعتبار کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے مگر میرئے لئے تم پر اعتبار کرنا ذرا بھی مشکل نہیں ہے میں تمہیں بچپن سے جانتا ہوں کیپٹن مجھے یقین ہے کہ میری بیٹی تمہارے ساتھ محفوظ رہے گی...... کب تک کرنل صاحب.... کیپٹن کرنل کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا شاید کیپٹن کا دل کرنل کے متوقعہ جواب کو پہلے ہی محسوس کر چکا تھا کیپٹن نے گھبراہٹ پر قابو پانے کے لئے لمبا سانس لیا

شاید ہمیشہ...... کرنل نے تیزی سے جواب دیا.... کیا مطلب کیا کہنا چاہتے ہیں آپ.....

کیپٹن میری ایک ہی بیٹی ہے اور ہر باپ کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ میری بیٹی محفوظ ہاتھوں میں رہے تو مجھے پلوشہ کے لئے تم سے بہتر مرد نہیں ملا مجھے پتہ ہے شاید تمہیں کچھ عجیب لگے کیونکہ اس معاشرے نے لڑکی والوں سے اپنی بیٹی کے لئے رشتہ مانگنے میں پہل کرنے کا حق چھین رکھا ہے مگر میرا ماننا ہے کہ اگر ہمیں اپنی بہن بیٹی کے لئے کوئی موزوں مرد ملے تو ہمیں رشتہ مانگنے می‍ں دیر نہیں کرنی چاہیے...... کیپٹن میں چاہتا ہوں کہ تم میری بیٹی پلوشہ سے شادی کر لو...... کرنل شیر خان نے اپنے اندر موجود تمام ہمت جمع کر کے دل کی بات کہہ دی

یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کرنل صاحب.... کیپٹن کے چہرے سے حیرانگی کے آثار واضح تھے..... صلدم کیا تمہیں کوئی اور پسند ہے.....

 نہیں مگر.....

کیا پلوشہ میں یہ ہمارے خاندان میں کوئی کمی ہے ماسوائے اس کے کہ پلوشہ میری اکلوتی بیٹی ہے.....نہیں کرنل صاحب مگر بات یہ ہے کہ..... وہ مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کہوں..... کیپٹن اپنی گھبراہٹ پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگا

کرنل نے کیپٹن کے ہاتھ کو اپنے دونوں ہاتھوں میں دبوچ لیا...... میری ایک ہی بیٹی ہے اور ہر باپ کی طرح میری بھی خواہش ہے کہ وہ ہمیشہ خوش رہے پتہ نہیں کیوں جو اعتبار مجھے تم پر ہے صلدم وہ دنیا کے کسی اور مرد پر نہیں ہے میرا یقین رکھو پلوشہ تمہیں بہت خوش رکھے گی

کرنل صاحب میری اور پلوشہ کی عمر میں بہت بڑا فرق ہے یہ ممکن نہیں ہے...... کیپٹن رشتے میں خلوص ہونا چاہئے عمر کم یا زیادہ یہ کچھ نہیں ہوتا اور ویسے بھی شوہر بیوی سے زیادہ عمر کا ہو تو ہی اچھا لگتا....... آپ نے پلوشہ سے پوچھا ہو سکتا وہ کسی اور کو پسند کرتی ہو...... کیپٹن میری بیٹی میری بات کا کبھی انکار نہیں کرئے گی تم کہو کیا کہتے ہو.... کرنل مجھے کچھ سوچنے کا وقت دیں میں اتنی جلدی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا.... ٹھیک ہے کیپٹن تم جتنا وقت چاہو لے لو...... کرنل صاحب آپ پھر سے سوچ لیں ہو سکتا آپ کو...... کیپٹن میں اچھے سے سوچ چکا ہوں....... کرنل نے کیپٹن کی بات کاٹ دی تھی....اچھا میں چلتا ہوں کرنل صاحب.... ٹھیک ہے پلوشہ کو راستے میں چھوڑ دینا..... کیپٹن نے کرنل سے ہاتھ ملایا اور وہاں سے نکلنے لگا شاید یہ پہلا موقع تھا جب کیپٹن کرنل کی آنکھوں میں دیکھے بغیر سلوٹ کر کے وہاں سے نکلا اور دل میں ہلچل اور گھبراہٹ کا ملا جلا احساس لیتے ہوئے گاڑی کی طرف چل دیا


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


صبح سے شام ہو چکی تھی ہادیہ اپنے آفس میں بے چین بیٹھی تھی کچھ دیر پہلے جب وہ زیان سے ملنے پولیس اسٹیشن پہنچی تھی تب بھی اس کی ملاقات زیان سے نہیں ہو پائی..... آخر اچانک سے ایسا کیوں ہو رہا ہے.... ہر گزرتا لمحہ ہادیہ کی بے چینی میں اضافہ کر رہا تھا...... کیپٹن مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے..........ہادیہ نے امید کی آخری کرن کے طور پر کیپٹن کو فون کیا......میں جانتا ہوں ہادیہ کہ تمہارا برا وقت چل رہا ہے....

تو ایک دوست کی حیثیت سے آپ کا فرض نہیں بنتا کہ آپ میری مدد کو پہنچے.....

ہادیہ میں نے تمہاری مدد کرنے کی کوشش کی تھی مگر تب تم نے انکار کر دیا....

کب......

جب میں نے کہا تھا یہ سب چھوڑ دو.....

کیپٹن یہ سب میرئے نہ جھکنے کی وجہ سے ہو رہا ہے کیا....

تم خوامخوہ اس کو انا کا مسئلہ بنا رہی ہو ہادیہ....

انا کا مسئلہ تو تمہارا ڈیپارٹمنٹ بنائے بیٹھا ہے.....

ان افراد کا تعلق میرئے ڈیپارٹمنٹ سے نہیں ہادیہ میرا ڈیپارٹمنٹ تو شہیدوں کا ڈیپارٹمنٹ ہے

مگر وہ لوگ تو قابض ہیں ناں......

کیا مدد چاہیے.....

مجھے میرئے شوہر کی رہائی چاہیے.....

تمہیں اس کی بھاری قیمت ادء کرنا پڑ سکتی ہے....

کیپٹن اپنی قیمت بولو.....

میں اپنی قیمت نہیں لگا رہا.... تمہارے شوہر کی قیمت کی بات کر رہا ہوں....

کیا چاہتے ہو کیپٹن....

وہی جو تمہیں کئی بار سمجھا چکا ہوں....

اس سے تم لوگوں کو کیا ملے گا....

اس سے کم از کم اس سیٹ پر تم نہیں ہو گی اور نئے آنے والے سے ہم جس طرح چاہیں کام کروائیں....

کیپٹن سیدھی طرح کیوں نہیں کہتے کہ تمہیں اس شہر میں ایک کھٹ پتلی لیڈر چاہیے جو صرف سائن کرنے کی مشین ہو......

اصل بات یہ ہے ہادیہ کہ وہ لوگ تمہیں جھکانا چاہتے ہیں مگر میں تمہیں جھکا ہوا نہیں دیکھ سکتا اس لئے بہتر ہے کہ تم راستے سے ہٹ جاؤ..... 

کیپٹن جتنا زور تم مجھے راستے سے ہٹانے پر لگا رہے ہو اتنا ان لوگوں پر لگاتے تو شاید اس ملک کا کچھ بہتر ہو حل ہو جاتا......

پتہ نہیں تمہیں میری باتیں کیوں سمجھ نہیں ہوتی ہادیہ......

کیپٹن تم مجھے سمجھانا چھوڑ دو میں بچی نہیں ہوں......

یہ تمہیں لگتا ہے ہادیہ کہ تم بچی نہیں ہو..... حقیقت یہ ہے کہ تم اب تک صرف بچی ہوئی ہو اور اگر یہی حالات رہے تو تم زیادہ دیر تک........

تم کہنا کیا چاہتے ہو کیپٹن......

یہی کہ تمہارے شوہر کو کسی اور نے نہیں بلکہ سکندر جتوئی نے گرفتار کروایا ہے کیونکہ وہ تم سے بھی اپنی جسمانی خواہشات پوری کرنا چاہتا ہے جیسے اس نے باقیوں سے کی اور تمہاری اینٹی اسٹبلشمنٹ پالیسیز کی وجہ سے تمام اسٹبلشمنٹ بھی سکندر کے ساتھ ہے اس لئے بہتر ہے کہ تم وقت رہتے یہاں سے نکل جاؤ........... کیپٹن غصیلے لہجے میں بولا تھا

کیپٹن یہ کس لہجے میں بات کر رہے ہو تم......

اسی لہجے میں جس میں مجھے کرنی چاہیے.....

مجھے نہیں سننا یہ بھاشن کیپٹن تم مجھے سمجھانے کے علاوہ زیان کو نکالنے میں میری کچھ مدد کر سکتے ہو یا نہیں.....

میں مجبور ہوں ہادیہ مجھے ہر حال میں اپنی ڈیوٹی سرانجام دینی ہے اور میرا فرض مجھے اجازت نہیں دیتا کہ میں مدد کروں.....

ہیلو ہیلو ہادیہ...... کیپٹن فون بند ہونے کی آواز سنتے ہوئے پکارا تھا..... ہادیہ نے فون ایک طرف پھینکا اور کچھ سوچنے لگی..... ماہم تم گھر جاؤ بچے اکیلے ہیں مجھے آج یہاں آفس میں کچھ کام ہے..... ہادیہ نے ماہم کو گھر جانے کا کہا اور خود واپس کرسی پر بیٹھ کر سوچنے لگی


🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥🔥


آپی ماہم نے بتایا آج ماما نہیں آئیں گی لویزا......اعنابیل لویزا کیساتھ کھیلتے ہوئے اچانک سے رک گئی تھی.....کیا ہوا اعنابیل..... لویزا اعنابیل کے چہرے کی طرف دیکھ کر بولی تھی اعنابیل کے چہرے سے مسکراہٹ اچانک سے غائب ہو گئی تھی..... کچھ نہیں لویزا..... 

تمہیں رات میں ڈر لگتا ہے کیا.....اعبابیل نے ایک نظر لویزا کے چہرے کی طرف دیکھ کر انکار میں سر ہلا دیا تھا......تو پھر تم اداس کیوں لگ رہی ہو......اعنابیل تم میرئے ساتھ سو جانا..... لویزا نے اعنابیل کا موڈ ٹھیک کرنے کی کوشش کی تھی.....نہیں مجھے ماما کیساتھ ہی نیند آتی ہے بس.... تو تم میرئے ساتھ کھیلتی رہنا جب نیند آئے گی تو سو جانا...... اگر تم پہلے سو گئی تو..... اعنابیل معصومیت سے بولی

تو تم بھی سو جانا......

مجھے نیند نہیں آئے گی.... 

میری ماما کہتی ہیں آنکھیں زور سے بند رکھیں تو نیند آ جاتی ہے....لویزا اعنابیل کو آنکھیں بند کر کے دیکھانے لگی تھی........ اچھا تم آپی ماہم کیساتھ سو جانا.............. لویزا نے اعنابیل کو خاموش دیکھ کر کہا....... نہیں مجھے وہ اچھی نہیں لگتی لویزا....اور ویسے بھی اگر میں آپی ماہم ساتھ سوئی تو تم کس کیساتھ لیٹو گی..... میں اکیلی سو جاؤں گی.... کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا..... اعنابیل حیرانگی سے لویزا کو دیکھنے لگی..... نہیں تو......

جو اکیلہ سوتا ناں چڑیلیں اس کی آنکھوں کو بگاڑ دیتی..... اعنابیل معصومیت سے بولی تھی..... ارئے میں تو بچپن سے اکیلی سوتی ہوں تم کتنی ڈرپوک ہو اعنابیل..... لویزا ہنسنے لگی تھی......تمہاری ماما تمہیں پیار نہیں کرتی کیا لویزا........کرتی ہیں.... تو پھر تمہیں اپنے ساتھ کیوں نہیں سلاتی..... اس طرح تو تمہاری ماما بھی تمہارے بھائی کو نہیں سلاتی اعنابیل....لویزا وہ اکیلہ سوتا تھا تو اس کی آنکھوں کو چڑیلوں نے خراب کر دیا...... اعنابیل سرگوشی کرتے ہوئے بولی تھی... تمہیں کیسے پتہ اعنابیل......میں نے دیکھا تھا اس کی آنکھیں بہت عجیب ہیں ماما نے کہا اس کی آنکھوں کی طرف نہیں دیکھنا ورنہ میں بھی ویسی ہو جاؤں گی....... 

تم نے کبھی اس کی آنکھوں کو نہیں دیکھا......

نہیں.....مجھے بہت ڈر لگتا کہی میں بھی چڑیل نہ بن جاؤں......تم بھی مت دیکھنا لویزا....... 

جو بھی دیکھے گا وہ ویسا ہی ہو جائے گا کیا......

ہاں لویزا ماما نے کہا کبھی مت دیکھنا..... 

اچھا مجھے نیند آ رہی اعنابیل میں سونے لگی ہوں.....لویزا نے کمبل کھنیچ کر اوپر کیا..... اتنی جلدی تم تو کہہ رہی تھی کہ ہم کھیلیں گے.... وہ میں نے زور سے آنکھیں بند کی تو مجھے نیند آ گئی اعنابیل.....تو تم زور سے آنکھیں بند نہ کرتی.... وہ خود ہی ہو گئی تھی...... لویزا نے کمبل کے اندر منہ چھپایا اور لمپ بند کر دیا.... اعنابیل نہ چاہتے ہوئے بھی آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کرنے لگی تھی.....رات گہری ہوتی چلی گئی اعنابیل نے کروٹ بدلی اور گہری نیند میں چلی گئی.......اگر میں اس کی آنکھوں میں دیکھوں تو میری آنکھیں بھی ویسی ہی ہوں گی اور پھر سب ان میں کھو جائیں گے انہی سوچوں میں گم لویزا نے خود کو کمبل سے الگ کیا اور پھر آہستگی سے نرم نرم قدموں سے چلتی دوسرے کمرے کی طرف جانے لگی...... دروازے تک پہنچ کر لویزا نے ایک نظر بستر پر سوئی اعنابیل کو دیکھا اور پھر آہستگی سے دروازہ کھول کر کمرئے سے باہر نکل گئی......قدم قدم پر عمر بھر کی بدنامی کے خوف سے جوان لڑکیوں کی ٹانگیں کانپ جاتی ہیں مگر ایک چھوٹی بچی جو عزت، ذلت کے حصار سے ناواقف اور بے باک ہو اس کو بھلا کیا خوف ندامت..... لویزا نے تیمور کے کمرئے کا دروازہ کھولا اور اندر چلی گئی...... تم سوئے نہیں کیا.... لویزا نے تیمور کو دیکھا جو ابھی تک پینٹنگ کر رہا تھا............. مجھے نیند نہیں آ رہی تھی لویزا..... تم سارا دن یہی کرتے رہتے ہو...... ہاں...

کیوں....

مجھے بہت مزہ آتا ہے یہ کرنے میں.....

مجھے بھی سکھاؤ گے کیا.....

تم رات کے اس وقت یہاں سیکھنے آئی ہو....

نہیں مجھے تمہاری آنکھوں میں دیکھنا ہے....

کیوں......

اعنابیل نے کہا جو تمہاری آنکھوں میں دیکھتا اس کی آنکھیں تم جیسی ہو جاتی ہیں مجھے بھی اپنی آنکھیں تم جیسی کرنی ہیں..... لویزا معصومانہ لہجے سے بولی تھی.......

میری آنکھوں پر چڑیلوں کا سایہ ہے.....

کیا سچ میں تیمور.......

ہاں لویزا...... تیمور نے پلٹ کر لویزا کی طرف دیکھا اور لویزا دیکھتی ہی رہ گئی.....لویزا نے پہلے بھی تیمور کو دیکھا تھا مگر یہ پہلی بار تھا جب دونوں تنہا تھے..........شاید رات تھی یا کوئی اور وجہ آنکھوں کی شدت عروج پر تھی..... تیمور آہستگی سے چلتا ہوا لویزا کی طرف گیا..... دیکھ لو لویزا.... لویزا تم بول نہیں رہی..... تیمور لویزا کے قریب پہنچ چکا تھا تیمور نے ہاتھ میں پکڑا ہوا پینٹنگ برش لویزا کی گالوں پر رکھا اور پھر آہستگی سے برش کو حرکت دی اور لویزا کی آنکھوں میں اپنی آنکھوں کا تشدد کرتے ہوئے گالوں پر گول گول دائرئے بنانے لگا..... لویزا ہر چیز سے بے نیاز تیمور کی آنکھوں میں مگن تھی.... تیمور گالوں پر دائرئے بنانے کے بعد برش کو گالوں سے حرکت دیتا ہوا گردن کی طرف بڑھنے لگا جیسے جیسے برش نیچے کی طرف آ رہا تھا ویسے ویسے لویزا کا چہرہ اوپر کی طرف اٹھ رہا تھا گویا یہ برش کوئی تیز دھاری تلوار ہو جو لویزا کی گردن کو کاٹ رہی ہو....... تیمور نے آہستگی سے برش کو گردن پر حرکت دی اور نقش بنانے لگا...... لویزا برش کی حرکت پر کبھی اپنا سر دائیں طرف موڑ لیتی اور کبھی بائیں طرف موڑ لیتی.....تیمور نے لویزا کی گردن کو اپنی نقش نگاری سے بھر دیا تھا........ برش کی حرکت پر ہلتی لویزا تیمور کے اتنے قریب آ چکی تھی کہ تیمور کی گرم سانسیں اسے اپنی گردن پر محسوس ہو رہی تھی...... تیمور نے اپنے ہونٹوں کو لویزا کے کان کے قریب کیا اور آہستگی سے لویزا کے کان کی لو کو اپنے ہونٹوں میں دبایا..... پسینے میں شرابور ہو چکی لویزا دھرام سے نیچے گری اور بے ہوش ہو گئی


Post a Comment

0 Comments