یہ 14 اگست 2010 کی ایک پررونق صبح تھی گلیوں اور بازاروں میں معمول سے زیادہ گمہا گہمی تھی 12 سال کا حیدر پوری رات گھر میں جھنڈیاں لگاتا رہا تھا ساری رات جاگنے کے باوجود اس کی آنکھوں میں نیند کے آثار تک نہ تھے.......سفید رنگ کا سوٹ پہنے، سینے پر پاکستانی پرچم کا بیج لگائے ، ماتھے پر سبز رنگ کی پٹی باندھے اور ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم اٹھائے حیدر گاؤں کی گلیوں میں پاکستان زندہ آباد کے نعرئے لگاتا ہوا بھاگ رہا تھا سکول میں آزادی کے موقع پر چھوٹی سی منعقد تقریب سے واپسی پر اب حیدر کے پاس ماسوائے آزادی کے نعرئے لگانے کے کرنے کو کچھ نہیں تھا.... حیدر بھاگتا ہوا اپنے دادا کے پاس پہنچا.....دادا ابو دادا ابو سب بچوں کو ان کے دادا 14 اگست پر پاکستان بننے کی کہانیاں سناتے ہیں آپ بھی سنائیں ناں جب پاکستان بنا تھا آپ کی عمر کتنی تھی................ حیدر معصومانہ انداز میں بولا تھا... دادا جی بتائیں ناں.... حیدر نے دوبارہ اسرار کیا مگر ہمیشہ کی طرح اس بار بھی حیدر کے سوال کا جواب صرف خاموشی تھی..... دادا جی آپ بتاتے کیوں نہیں آپ 1947 میں تھے بھی یا نہیں.... حیدر کے چہرے پر معصومانہ غصہ تھا...... مگر ایک لمبی خاموشی....حیدر دادا کو چھوڑ کر بھاگتے ہوئے اپنی دادی کے پاس گیا اور آزادی کی کہانی سنانے کی ضد کرنے لگا جس پر دادی نے ہمیشہ کی طرح ایک فرضی سی کہانی سنانا شروع کر دی
وقت گزرتا گیا 2013 کا وسط آ پہنچا حیدر معمول کے مطابق سکول سے واپس آیا تو گھر کے حالات معمول کے بلکل الٹ تھے دادا جی کے پاس 15 سے 20 سکھ نوجوان موجود تھے جو ہر سال بھارت سے آنے والے قافلے میں اپنی رسومات ادء کرنے پاکستان آئے تھے......... حیدر دادا جی کے چہرے پر عجیب سی رونق اور خوشی دیکھ کر حیران تھا....دادا جی کی خوشی کا اندازہ اس بات سے عیاں تھا کہ مارئے خوشی کہ دادا جی بولتے ہوئے بھی کانپ رہے تھے ان کا سارا جسم کانپ رہا تھا دن ڈھلا شام ہوئی سکھ نوجوان واپس چلے گئے
وقت گزرتا گیا ہر سال 14 اگست آتی مگر دادا نے کبھی 14 اگست 1947 کی کہانی نہیں سنائی بلکہ ہر بار یہ سوال ان کے چہرے پر ایک اداسی پیدا کر گیا....آخر ہم کون ہیں؟؟؟ کیا ہم بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے یا ہم پہلے سے یہاں تھے..... یہ سوال حیدر کو مسلسل تنگ کئے ہوئے تھا...حیدر نے الجھن سے نکلنے کے لئے یہی سوال ایک دور کے کزن حبیب کے سامنے رکھ دیا حبیب جو پہلی بار حیدر سے ملا تھا... شاید یہ اس سوال کا جواب دئے پائے شاید اس کے دادا نے کہانی سنائی ہو.....بھائی آپ کے دادا محمد ریاض اور میرئے دادا محمد فیاض دونوں بھائی ہیں ناں آپ نے کبھی ان سے یہ سوال پوچھا........حبیب مسکرا دیا تھا.... بتائیں ناں حبیب بھائی...... حیدر کے اسرار پر حبیب نے ایک ڈائری حیدر کو تھما دی جو حبیب کے مطابق اس کے دادا نے زندگی کے آخری آیام میں لکھی تھی حیدر تجسس سے کتاب پڑھنے لگا
پنجاب یعنی 5 دریاؤں کی زمین..... انگریز برصغیر کو سونے کی چڑیا کہتے تھے اور برصغیر میں بھی پنجاب وہ ریاست تھی جو خوشحالی میں پورئے برصغیر میں سبقت رکھتی تھی چندی گڑھ سے اٹک تک پھیلی ریاست پنجاب میں مسلمان، عیسائی، سکھ، ہندو الغرض ہر طرح کی قومیں آباد تھی مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے کے باوجود یہاں کے لوگ اتنے ملنسار تھے کہ ہر خوشی غمی میں ایک دوسرے کے ساتھ ہوتے تھے ہندوؤں سکھوں اور مسلمانوں کی آپس میں گہری دوستیاں تھی اور پھر یوں ہوا کہ اچانک آزادی پھیل گئی
دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ جرمنی کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا چکا تھا حکومت برطانیہ کے لئے ایک ہی وقت میں برصغیر، ریاست برطانیہ،اور باقی ملکوں میں پھیلی برٹش حکومت کو سنبھالنا مشکل ترین ہو چکا تھا برصغیر میں آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کی جانب سے آزادی کی مہم عروج پر تھی تمام کوششوں کے باوجود برٹش حکومت کا برصغیر پر سیاسی کنٹرول ختم ہوتا جا رہا تھا دوسری طرف برصغیر کے ہمسائے میں موجود برطانیہ کے دشمن ملک روس اور افغان بھی برصغیر کا کنٹرول برطانیہ سے چھین لینا چاہتے تھے دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد برطانیہ روس کے ہاتھوں برصغیر میں شکست کھا کر مزید ذلالت نہیں لینا چاہتا تھا چنانچہ حکومت برطانیہ نے 1946 میں برصغیر کو آزاد کرنے کا فیصلہ کیا اس منصوبے کے تحت حکومت برطانیہ کو 30 جون 1948 تک برصغیر کو دو آزاد ریاستوں میں تقسیم کر کے پاور منتقل کرنی تھی مگر 30 جون 1947 کو اچانک برطانیہ نے یہ منصوبہ بدل دیا اور برصغیر کو 30 جون 1948 کو آزاد کرنے کی بجائے 15 اگست 1947 تک آزاد کرنے کا اعلان کر دیا یعنی صرف 73 دن بعد نیپال کی سرحد سے لے کر افغانستان کی سرحد تک پھیلے برصغیر کو تقسیم کرنا تھا آزادی کا یہ اعلان اتنا اچانک اور جلدی تھا کہ کانگریس اور مسلم لیگ کے نمائندے بھی حیران رہ گئے ایک عظیم الشان سلطنت کو تقسیم کرنے کے لئے 73 دن رکھے گئے صرف 73 دن...... حکومت برطانیہ نے جلدی میں لاوڈ ماونٹین بیٹن کو برطانیہ سے برصغیر بھیجا تا کہ سرحدوں کا تعین کیا جا سکے 73 دنوں میں حکومتی خزانے سے لے کر فوج تک اور لائبریری کی کرسی سے لے کر حکومتی افسران تک ہر چیز کو دو ریاستوں میں تقسیم کیا جانا تھا.... تقسیم کا یہ سلسلہ شروع ہو گیا اس کے ساتھ ہی برصغیر میں موجود مذہبی جنونیت کی چنگاری سلگنے لگی مذہبی جنونیت کی چنگاری 1945 سے ہی جاری تھی 1945 میں سندھ میں مسلمانوں نے ہندؤں کے گھروں کو جلا دیا جس کے بعد 1946 میں دہلی کے اندر مسلمان قتل ہوئے اس کے بعد گویا قتل و غارت کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا مذہبی جنونیت کی یہ آگ پنجاب کے گرد سلگنے لگی
قتل و غارت اور بدلے کی آگ نے پنجاب میں تباہی پھیلانا شروع کی 1946 میں راولپنڈی کے قریب مسلمانوں کے ایک گروہ نے ایک ہندو لڑکی کی خاطر سکھوں اور ہندوں کے مشترکہ گاؤں پر حملہ کر دیا اور ہندو لڑکی حاصل کر لی اس حملے کے اگلے ہی دن دوبارہ اس گاؤں پر حملہ ہوا اور گاؤں کے تمام مردوں کو قتل کر دیا گیا گاؤں کی 93 عورتوں نے مسلمانوں سے بچنے کے لئے ایک ہی کنویں میں کود کر جان دئے دی اس واقعے کے بعد ہندو اور سکھ اکثریتی علاقوں میں بھی مسلمانوں کا قتل عام شروع ہو گیا جیسے جیسے وقت گزرتا گیا آزادی کی یہ آگ پنجاب میں پھیلتی گئی کیونک پنجاب وہ ریاست تھی جس سے کسی بھی صورت کانگریس اور مسلم لیگ دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں تھے برصغیر کا 70 فیصد اناج پنجاب میں پیدا ہوتا تھا جس ملک کے حصے میں بھی پنجاب آتا وہ ملک تاقیامت اناج کی قلت کا شکار نہیں ہو سکتا تھا چنانچہ پنجاب کے معاملے میں مسلم لیگ اور کانگریس میں ٹھن گئی سندھ، پشاور، دہلی میں سکھ مسلم فسادات کے بعد سکھ مسلمانوں سے دور ہوتے گئے آخر لاؤڈ ماونٹین نے نقشے پر ایک لائن کھینچ کر پنجاب کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا جس کا نتیجہ صرف آگ تھی پنجاب کے لوگ پنجاب کی تقسیم پر آزادی نہیں چاہتے تھے لوگوں کا خیال تھا کہ اگر پنجاب تقسیم کرنا ہے تو اس سے بہتر ہے کہ ہم غلام رہیں اٹک سے چندی گڑھ تک پنجاب کے لوگوں کی آپس میں رشتہ داریاں تھی مگر اب پنجاب کی عوام کو تقسیم ہونا تھا بھارتی پنجاب یا پاکستانی پنجاب............. تقسیم کرو اور فتح کرو کہ رول کے مطابق انگریز سرکار نے پنجاب میں فرقہ وارانہ مذہبی فسادات کو ہوا دینا شروع کر دی مسلم لیگ اور کانگریس دونوں جماعتوں نے اس چنگاڑی کو خوب ہوا دی دوسری طرف پنجاب کے گرد پھیلی آزادی کی آگ پنجاب تک پہنچ گئی اور یوں نقشے ہر کھنچی ایک لائن نے سالوں سے ایک ساتھ رہتے لوگوں کو ایک دوسرے کا جانی دشمن بنا دیا جو کبھی ایک دوسرے کے خوشی و غمی کے ساتھی تھے وہ اب ایک دوسرے کے جانی دشمن بن گئے پنجاب تقسیم ہونا تھا اس لئے اصل میدان جنگ پنجاب کو ہی بننا تھا جولائی 1947 میں جب آزادی چند دن دور تھی تب مسلم اکثریتی علاقوں میں سکھوں اور ہندوؤں پر قاتلانہ حملے شروع ہو گئے اسی طرح سکھوں اور ہندؤں کے اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کو قتل کرنا معمول بن گیا برصغیر کی سب سے خوشحال سب سے پرامن اور انگریز کے خلاف آخری دم تک لڑنے والی ریاست پنجاب آزادی کی آگ میں جلنے لگی
4 اگست 1947 کو امرتسر میں 60 مسلمانوں کو قتل کر دیا گیا اس کے صرف دو دن بعد مسلمانوں نے بدلہ لینے کے لئے لدھاینہ فیروزپورہ میں 70 سکھوں کو قتل کر دیا اگست کے پہلے ہفتے امرتسر میں ہر روز 100 سے زائد لوگ قتل ہو رہے تھے
آزادی سے صرف 1 دن پہلے 13 اگست 1947 کو لاہور سے امرتسر جانے والی سکھوں کی ٹرین پر حملہ ہوا اور جب یہ ٹرین امرتسر پہنچی تو اس میں ایک بھی زندہ مسافر نہیں تھا اسی دن لاہور ریلوے اسٹیشن پر بھارت جانے والے 42 نہاتے ہندوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا
14اگست کی صبح دہلی سے پاکستان اسپیشل ٹرین لاہور کے لئے نکلی جیسے ہی یہ ٹرین بھارتی پنجاب میں پہنچی بدلے کی آگ میں جلتے سکھوں نے ٹرین کو آگ لگا کر تمام مسلمان مسافروں کو زندہ جلا دیا اس واقعے کی خبر جب لاہور پہنچی تو 15 اگست کو امرتسر جانے والی ٹرین کو مسلمانوں کی جانب سے آگ لگا دی گئی
امرتسر، چندی گڑھ، لدھیانہ، فیروزپورہ، پٹیالہ، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ سیالکوٹ، راولپنڈی پوری طرح جلنے لگے 1 اگست سے 25 اگست تک ہر طرف خون ہی خون تھا لاکھوں کی تعداد میں مسلمان، سکھ، ہندو آزادی کی آگ میں جل گئے تھے 70 ہزار عورتوں کو دونوں اطراف سے ریپ کا نشانہ بنایا گیا 1 کڑور 20 لاکھ کے قریب لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تھے مسلمانوں کو مجبوری میں بھارتی پنجاب اور سکھوں کو پاکستانی پنجاب چھوڑنا پڑا...... تقسیم پنجاب ہی درحقیقت تقسیم ہند تھی آل انڈیا مسلم لیگ اگر چاہتی تو سکھوں کو منا کر پورا پنجاب پاکستان میں شامل کروا سکتی تھی مگر مسلم لیگ نے جب سکھوں کو منانے کی کوشش کی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی
آزادی کی یہی آگ حیدر کے دادا محمد فیاض کے خاندان کو جلا چکی تھی جن کا تعلق بھارتی پنجاب کے ضلع امبالہ کی تفصیل روپڑ کے گاؤں حویلیاں سے تھا 10 اگست کی رات گاؤں حویلیاں پر سکھوں نے حملہ کر دیا حملہ اتنا اچانک تھا کہ ہر طرف افراتفری پھیل گئی سکھ گاجر مولی کی طرح مسلمانوں کو کاٹنے لگے فیاض نے اپنی 8 سالہ بھتیجی آمنہ کو گود اٹھایا اور اپنے خاندان کے باقی لوگوں کیساتھ گھر سے نکلنے لگے فیاض کا سب سے چھوٹا بھائی ٹانگوں سے معذور تھا افراتفری میں جان کے لالے پڑ چکے تھے فیاض نے اپنے معذور بھائی کو کندھوں پر اٹھایا اور آمنہ کو سینے پر باندھ کر دیوار پھلانگی اور نیچے گرنے سے پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی معذور بھائی نے نا چاہتے ہوئے بھی خود کو فیاض سے الگ کر لیا تھا شاید وہ سمجھ گیا تھا کہ فیاض اس کو لے کر مزید نہیں بھاگ سکتا دونوں حسرت سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے 10 اگست کے اسی حملے میں فیاض کا معذور چھوٹا بھائی اور بڑا بھائی آمنہ کا باپ سکھوں کے ہاتھوں مارئے گئے فیاض اس کے باقی مانندہ بھائی باپ سمیت ساری رات کھیتوں میں چھپے رہے اگلی صبح گاؤں میں موجود مسلمانوں کے تمام گھروں کو آگ لگا دی گئی 10 اگست سے 12 اگست تک یہ پورا خاندان کھیتوں میں چھپا رہا اور پھر 12 اگست کی رات گاؤں حویلیاں سے چھپتے چھپاتے دوسرے گاؤں پہنچا اور ایک سکھ دوست کے ہاں پناہ لی جہاں 19 اگست کی رات پھر حملہ ہوا اس حملے کے دوران فیاض کی بھابھی اپنی 8 سالہ بیٹی کے ساتھ کنویں میں کود گئی
19 اگست سے 24 اگست تک یہ لوگ امبالہ کے گرد موجود جنگلوں میں چھپے رہے اور پھر مختلف قافلوں میں چھپتے چھپاتے یہ خاندان 31 اگست کو لاہور پہنچ گیا حیدر کے دادا فیاض اپنے باپ کیساتھ 29 اگست 1947 کو لاہور پہنچے جبکہ فیاض کے دو بھائی 31 اگست 1947 کو لاہور مہاجر کمپ پہنچے
2 ستمبر 1947 کو جب پاکستان پہنچنے والے خاندان کے تمام لوگ جمع ہوئے تو خاندان میں صرف فیاض اس کے دو بھائی اور ایک باپ زندہ تھے فیاض کا بڑا بھائی، بھابھی، بھتیجی اور ایک چھوٹا بھائی سکھوں کے ہاتھوں قتل ہو چکے تھے فیاض کی دو بہنیں جن کی شادی 1944 میں امرتسر کے قریب گاؤں میں ہوئی تھی ان کا کوئی آتا پتہ نہ تھا
کیا فیاض کی وہ دو بہنیں ہجرت کر کے پاکستان پہنچی یا راستے میں ہی آزادی کی آگ میں جھل گئی یا پھر وہ لوگ پاکستان آنے کی بجائے ہندوستان میں ہی رہ گئے اس سوال کا جواب آج تک نامعلوم ہے فیاض اور اس کے بھائیوں کا رابطہ 1947 کے بعد کبھی اپنی بہنوں سے نہیں ہوا
فیاض کے بھائی نے اپنی ڈائری میں مزید لکھا کہ 10 اگست 1947 کو جب سکھوں نے حویلیاں گاؤں پر حملہ کیا تو کئی مسلمان ایسے تھے جن کو نیند سے بیدار ہونے تک کا موقع نہ ملا ہمارے سامنے ہمارئے گھروں کو لوٹ کر آگ لگا دی گئی مویشی چھین لیے گئے گندم، چاول کے گودام لوٹ لئے گئے لڑکیوں کو موقع پر ہی ریپ کے بعد قتل کیا گیا لوگوں نے اپنی جوان بیٹوں کو زیادتی کے ڈر سے خود قتل کر دیا کئی جوان لڑکی از خود کنویں میں کود پڑی
ستم تو یہ کہ آزادی کی یہ آگ جب پوری طرح پنجاب کو اپنی لیپٹ میں لے چکی تھی تو پنجاب کے دونوں دعویدار کانگریس اور مسلم لیگ خاموش تماشائی بنے رہے 14 اگست کی شب جب پنڈت جواہر لال نہرو اور قائداعظم آزادی کی تقاریر کی تیاری میں مصروف تھے تب پنجاب پوری طرح جھلس رہا تھا 15 اگست کا سورج دونوں ملکوں کے لئے ایک نئی آزاد صبح کا دن تھا جب راجھستان، اترپردیش، بہار اور بھارت کی باقی 30 ریاستوں میں آزادی کا جشن منایا جا رہا تھا اور پاکستان میں سندھ، بلوچستان اور سرحد (پختون خواہ) میں بھی ایک آزاد صبح کا جشن تھا ٹھیک اسی وقت دو حصوں میں تقسیم ہو چکا پنجاب تاریخ کی سب سے بڑی خانہ جنگی کی لیپٹ میں تھا پنجابی پنجابیوں کو ہی قتل کر رہے تھے
پنجاب دونوں ملکوں کے کنٹرول سے باہر ہو گیا تھا حکومتی مشینری مفلوج ہو کر رہ گئی تھی پنجاب کی انتظامیہ، سول حکومت، بیوروکریسی اور یہاں تک کہ عام عوام تک اس اچانک تقسیم کے لئے تیار نہ تھے
حقیقت تو یہ ہے کہ پنجاب کا نوجوان اپنی تقسیم پر کبھی آزادی نہیں چاہتا تھا پنجاب متحد رہنا چاہتا تھا مگر یہ آزادی زبردستی پنجاب پر مسلط کی گئی جس نے لاکھوں بچے یتیم کئے، ہزاروں عورتیں بے آبرو کی اور ہزاروں عورتوں کو بیوہ کیا
انگریزوں کے برصغیر پر راج کے 150 سال کےمظالم ایک طرف اور تقسیم پنجاب کا ظلم ایک طرف.....
اس کہانی میں حیدر (فرضی نام) درحقیقت میں میں بذات خود اور فیاض(فرضی نام) درحقیقت میرئے دادا ہیں شاید اس کہانی میں نام ہی فرضی تھے 2013 کے وسط میں جو سکھ نوجوان دادا جی کے پاس کھڑے تھے وہ دراصل ان کے دوست سردار مہندر سنگھ عرف مندو سنگھ کے پوتے تھے وہی مندو سنگھ جس نے 12 اگست سے 19 اگست 1947 تک دادا اور ان کے خاندان کو اپنے گھر پناہ دی تھی یہ لوگ مذہبی رسومات ادء کرنے کے بعد گاؤں کی سیر کو نکلے تھے کہ میرئے دادا سے رسمی طور پر ملتے ہوئے باتوں باتوں میں حویلیاں گاؤں کا ذکر کر بیٹھے تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ مندو سنگھ کے پوتے ہیں... مندو سنگھ کے پوتوں نے بتایا کہ ان کے دادا مندو سنگھ شدید خواہش کے باوجود پاکستان نہیں آ پائے اور 2009 میں انتقال کر گئے
میرا تعلق ایک ایسے علاقے سے ہے جہاں ہر سال لاکھوں سکھ یاتری مذہبی رسومات ادء کرنے آتے ہیں آج سے چند سال پہلے جب پابندیاں اتنی سخت نہیں تھی تب یہ سکھ یاتری مذہبی رسومات سے فارغ ہو کر گاؤں اور اس سے ملحقہ شہر دیکھا کرتے تھے میں نے خود بوڑھے سکھوں کو اپنے گاؤں کی گلیوں میں بیٹھ کر روتے دیکھا ہے پرانے مکانات کی دیواروں کو چومتے دیکھا ہے اپنی جگہ اپنی زمین اپنا گھر انسان کو کتنا عزیز ہوتا ہے اس کا اندازہ ان سکھوں سے لگایا جا سکتا ہے جو میرئے گاؤں کی میرئے شہر کی دیواروں کو چومتے ہیں یہاں کی مٹی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور گلیوں میں زمین پر بیٹھ کر زاروقطار روتے ہیں یہ علاقہ ان کا تھا جہاں سے ان کو نکال دیا گیا میری شدید خواہش رہی کہ کاش میں بھی کبھی بھارتی پنجاب میں موجود آبائی گاؤں حویلیاں جا سکوں وہاں اپنے اجداد کی قبریں دیکھ سکوں اس مٹی کو چھو سکوں جس پر میرئے اجداد خون پسینہ بہاتے رہے ان مکانات کو دیکھ سکوں جہاں کبھی ہمارے اجداد رہا کرتے تھے مگر نفرتوں کے اس دور میں شاید اب یہ ممکن نہیں گویا ظلم حب الوطنی ٹھہرا اور محبت غداری بنی
14 اگست 2021 آج پھر صبح جب میں دادا جی کے پاس گیا تو ان کا چہرہ اداس تھا آنکھوں میں نمی اور ہونٹوں پر ایک خاموشی....... میں نہیں جانتا کہ ڈائری میں لکھے واقعات کتنے سچے ہیں میں یہ بھی نہیں جانتا کہ 1947 میں کیا ہوا تھا مگر ہاں میں نے 1947 کو اپنے دادا کے اداس چہرے اور نم آنکھوں میں دیکھا ہے اور میں پچھلے 15 سال سے 14 اگست پر ان نم آنکھوں اور اداس چہرے کو دیکھتا ہوں اور نجانے کیوں اب میرا دل آزادی کی مبارک دینے کو نہیں کرتا دادا جی کی عمر 103 سال ہو چکی ہے دعا ہے کہ اللہ ان کا سایہ ہمیشہ ہم پر قائم رکھے آمین
0 Comments